inspirationhighwaytoheavenUrdu

 

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’ میں نے رسول ﷺ سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟ ‘‘ آپﷺ نے فرمایا :’’وقت پہ ادا کی گئی نماز‘‘ میں نے پوچھا پھر کونسا عمل؟ آپﷺ نے کہا :’ ’ والدین کے تئیں نرمی و عزت‘‘میں نے ان سے پوچھا ، پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا’’ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا‘‘۔

حدیث میں مذکور امور پہ عمل پیرا ہوکے ہم جنت کی شاہراہ پہ گامزن ہو سکتے ہیں، یہ عمل تمام اعمال میں افضلیت رکھتا ہے ، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے ، یہ اعمال اسلام کی لاثانی جمالیات میں سے ہیں ، ہمیں ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ، مگر تعجب ہے کہ لوگ اس بارے میں کافی غفلت کا شکار ہیں ۔

یہ ہے اطاعت والدین یعنی اپنے والدین کے تئیں عزت و شفقت ، ایک ایسا محبوب عمل جو اسلام میں رہ کر بخوبی انجام پاسکتا ہے ۔

نیک اعمال اور ہمارا بنیادی مقصد: اس موجودہ زمانے میں ہم اکثر مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ مسجدوں میں شب و روز اذکار و دیگر سماجی خدمات مثلاً صدقات، قرآن خوانی میں مصروف عمل رہتے ہیں اور اپنے والدین کے بارے میں یکسر بھولے ہوتے ہیں ، انکی مزاج پرسی بھی نہیں کرتے ۔

آئیے اصل مقصد کی طرف رخ کرتے ہوئے آپ کو باخبر کرتے ہیں کہ واقعتا ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ اصل مقصد اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے ۔  اللہ نے اپنی عبادت کا حکم صادر کرنے کے معاً بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ والدین کا یہ مقام و رتبه و منزلت دنیائے انسانیت نے صرف اسلام ہی کے ذریعہ جانا ۔ متعدد آیات کے اندر مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور اسکی ذات میں یقین رکھنے کے بعد اپنے والدین کو خوش کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔

(وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا٪ط ۔۔۔الخ)یعنی تیرا پرور دگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سواکسی اور کی عبادت مت کرناور ماں پاب کے ساتھ احسان کرنا اگر تیری موجودگی میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہونچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ، احسان لفظ کا استعمال کیا ہے جو اپنی معنویت کے لحاظ سے نہایت جامع ہے ۔

سب سے بڑی خوشی اور اس کا حصول: یوں تو والدین کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کی بات کرنا قدرے تبلیغی اور معمولی سا محسوس ہوتا ہے تا ہم آج ہم اسے ذرا مختلف انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ کو اس عظیم خوشی کے لئے آمادہ کرنا چاہتے ہیں، اس کیلئے خواہش بیدار کرنا چاہتے ہیں نیز باور کرانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے کتنا زریں موقع عنایت کیا ہے ۔ وہ عظیم خوشی آ ج شدت سے منتظر ہے ، جانتے ہیں وہ خوشی کیا ہے ؟ وہ ہے دیدار الٰہی ، یہ ایک ایسا موقع ہو گا جب ہم اپنے خالق کو دیکھ سکیں گے اور باتیں کرسکیں گے ، ممکن ہے کہ ایسا ہر روز ہو ، ذرا رک کر سوچیں تو، کہ اللہ سے روبرو ہونا کتنا دلفریب ہو گا ، وہ بھی ہرروز ! اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب آپ جنت میں داخل ہوں گے ، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ آخر جنت میں ہمارا دخول کیوں کر ممکن ہو گا ۔ اسی وقت یہ ممکن ہے جب اطاعت والدین جیسی لازوال نعمت سے سرفراز ہوں گے ۔

ایک مشہور حدیث میں آتا ہے کہ ايک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور بولا ‘‘اے اللہ کے رسول ﷺ میں جنت میں کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘کیا تمہاری والدہ زندہ ہیں ؟ ’’  آدمی نے جواب دیا  ‘‘ ہاں وہ باحیات ہیں’’  رسول ﷺ نے فرمایا  ‘‘تم ان کی خدمت کو لازم پکڑو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے پاس ہے ’’ ۔

والدین کی محبت ہمارے لئے نعمت عظیم ہے: والدین کے دل سے ہمارے لئے جو محبت نکلتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نشانی اور بڑی نعمت ہے، خواہ و ہ مسلم ہو یا غیر مسلم انسانوں کے مابین اس قسم کی محبت کہیں اور نہیں ملتی ۔

ان کی محبت سے آپ کو کبھی احسان تلے دبے رہنے کا احساس نہیں ہوتا حالانکہ بسا اوقات ہم ان کے ساتھ خیر کر کے اپنے احسان کا احساس دلادیتے ہیں ، اسی نکتہ نے مجھے کچھ لکھنے پر مجبور کیا ۔

کبھی کبھی ہم اپنے والدین کی اطاعت صرف اس بنا پر کرتے ہیں کہ ہم ایسا کرنے کے لئے مجبور محض ہیں ۔ یہ سوچ ہمارے نزدیک غلط ہے ۔ ہمارے والدین اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بہترین عطیہ ہیں ۔ ان کے ساتھ زندگی بسر کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک زریں موقع ہمیں میسر ہوسکتا ہے ، سبحان اللہ ! اللہ ہمیں والدین کی خدمت کرکے اپنی خوشنودی حاصل کرنے کی توفیق بخشے ، آمین ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ’’ (مسند امام احمد)

والدین کے احسان مند کیسے بنیں : ہم مسلمان اس زندگی میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ، جنت کے آرزو مند ہوتے ہیں ، اور اس کے لئے جد و جہد کرتے ہیں مگر اس امر کی طرف ہم توجہ بہت کم مبذول کر پاتے ہیں کہ ایک سچے مؤمن کا سب سے اہم خاصہ شکر کی بجا آوری اور احسان مند ہونا ہے ، اللہ تعالیٰ سورۃ الاسراء آیت ۲۳ میں فرمایا ہے کہ ‘‘تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ’’   ۔

مگر ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اپنے والدین کا شکر بجالاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں ان پہ نرمی کرنے خصوصاً پیری کی حالت میں زیادہ خیال کرنے کی تلقین کرتا ہے ، والدین کے تئيں نرمی و شفقت میں یہ بھی شامل ہے کہ جن کاموں سے وہ خوش ہوں اسے انجام دیں اور جو کام ان کو تکلیف دیں اس سے باز آجائیں ۔ اس طرح ہم اپنے والدین کے مشکور اور احسان مند ہوسکتے ہیں ۔ ابن سیرین رضی اللہ عنہ اپنی ماں سے نہایت ہی نرم گفتاری سے پیش آیا کرتے تھے ۔ کیونکہ ان کے دل میں ماں کیلئے حد درجہ احترام تھا ۔

ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ہم کیا کریں جب ہمارے والدین کسی حرام چیز کے ارتکاب کا حکم دیں ، تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ ‘‘لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِق’’ یعنی خالق کی معصیت کی صورت میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی (خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں) اللہ تعالیٰ پہ ایمان اور یقین سے زیادہ مضبوط کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ اسلئے والدین اگر برائی کا حکم دیں تو اسے بحسن خوبی انگیز کر دینا چاہئے، آپ کے دل میں ان کے تعلق سے عزت و تکریم حتمی ہونی چاہئے ۔

کافر والدین کا مسئلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے ۔ ہم اکثر اس بارے میں سوچتے ہیں ، ہمیں ان کے سامنے بھی شفقت اور مہربانی سے پیش آنا چاہئے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ان کی کافرماں کی بابت فرمایا  ‘‘اپنی ماں کے ساتھ رہو اور ان کی مدد کرو ’’۔

والدین کی نافرمانی گناہ عظیم ہے : جب بھی ہم اپنی ماں کو سب و ستم کا نشانہ بنانا چاہیں ، یا والدین کے سامنے زبان درازی کریں یا جب وہ پاس بلائیں تو پس و پیش کا شکار ر ہیں ، تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حدیث میں اس بارے میں بڑی وعید آئی ہے ۔

حضرت ابو بکرہ بن نافع ابن الحارث سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ہم سے تین بار پوچھا کہ کیا میں آپ لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا ‘‘کیوں نہیں اللہ کے رسول’’  آپ ؐ نے کہا  ‘‘اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا’’

یادر ہے کہ ایک بیدار مسلم کا دل ہمیشہ سر گرم عمل رہتا ہے اور وہ اسے کام کی انجام دہی کے بارے میں گاہے بگاہے آگاہ کرتا رہتاہے ۔

جنت کے حصول کا زریں موقع : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا’’ وہ شخص ہلاک ہو ! وہ شخص ہلاک ہو ! وہ شخص ہلاک ہو ! پو چھا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون ہے ؟  آپ ﷺ نے کہا ’’ جس شخص نے اپنے والدین میں سے دونوں کو یا کسی ایک کو پایا اور ان کی خدمت کر کے خود کو جنت کا مستحق نہ بنا یا ۔

ایک شخص کے والد کا انتقال ہوا تو وہ جنازہ میں بے تحاشا رو رہا تھا ، کسی نے اس کے پاس جاکر اس کو تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ بولا  ‘‘ بھائی جان میں اس لئے نہیں گریۂ و زاری کر رہا کہ میرے والدین نہیں رہے ۔ میں جانتا ہوں کہ اس دنیا کے بمقابل وہ بہتر جگہ ہوں گے ، بلکہ اس لئے کہ میرا جنت کا سب سے بڑا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ ’’ سبحان اللہ !

اطاعت والدین کیا ہے؟ اس سلسلے میں ہم چند نکات تحریر کر رہے ہیں ۔

µ ان کے مشوروں کو ہم غور سے سنیں ۔

µ ان سے بات کرتے وقت اپنی حرکات و سکنات کا خاص خیال رکھیں اور اپنی آواز کو قابو میں رکھیں ، زیادہ بلند نہ کریں ۔

µ انہیں کسی دلکش جگہ کی سیر کرائیں یا اچھے پکوان کھلائیں ۔

µ ان کو (اگر باہر ہوں ) ذاتی خطوط لکھیں اور مزاج پرسی کریں ۔

µ مالی امداد فراہم کریں ۔

µ ان سے بلند مقام پر نہ بیٹھیں ۔

µ ان کی باتوں میں مخل نہ ہوں ، اور جب ان سے ہم کلام ہوں تو نرم گفتاری سے پیش آئیں ، یوسفؐ نے ‘‘يٰۤاَبَتِ’’   جیسی دلآویز ترکیب کا استعمال کیا تھا ۔

µ سب سے اہم بات یہ کہ ہم ان کے لئے دعائیں کریں ۔

ہماری ذمہ داریاں: آج کے بعد ہمیں چاہئے کہ اپنے والدین کی مغفرت کے لئے ہر نماز میں دعائیں کریں ، اپنے سجود میں دعائیں مانگیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں درگزر کرے اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے ۔ ان شاء اللہ فرشتے بھی آپ کی دعاؤں پہ آمین کہیں گے ، اطاعت والدین آپ کے لئے بہترین عمل ہے اس لئے آپ دیر نہ کریں اور اسی ہفتہ والدین سے ملیں ان سے اپنی محبت کا اظہار کریں اور ان سے مغفرت طلب کریں ، انکو کال کریں ، جاکر ملیں اور اگر ساتھ میں رہتے ہوں تو جاکے گلے ملیں ، کیونکہ انہوں نے آپ کو جنت کے دخول کا زریں موقع عنایت کیا ہے۔

اللہ ہمیں نیک اولاد بنائے اور ہمارے والدین کی گناہوں کو بخش دے ، اور ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ہمیں جنت میں ساتھ رکھے ، ارشاد باری ہے : (وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ۔۔۔الخ ) یعنی عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تو اضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا كه اے میرے پروردگار! ان پر ایسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی توفیق دے ۔ آمین ۔

Connect Us on WhatsApp
//
Understand Al-Quran Academy
Customer Support -1
//
Understand Al-Quran Academy
Customer Support - 2
How can we help?